KARACHI Markets hISTORY کراچی کے بازار

 
کراچی کی تاریخ کا اگرجائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی اب سے تقریبا ڈھائی سو برس قبل جن علاقوں پر مشتمل تھا یہ وہ علاقے ہیں جہاں پر آج  کراچی کے مرکزی بازار قائم ہیں 
  کراچی کی تاریخی معلوما ت کے لحاظ سے جس مقام پر یا جہاں سے کراچی کی ابتدا ہوئی یا سیٹھ ناول مل کے مطابق ان کے دادا بھوجو مل نے 1729 میں جس کراچی شہر کی بنیاد رکھی تھی وہ آج کل ایم اے جناح روڈ پر واقع بولٹن مارکیٹ اورکراچی کی سب سے بڑی مسجد میمن مسجد کے عقب میں واقع پرانا شہر ہے جسے اولڈ ٹاون بھی کہا جاتا ہے اور جوڑیا بازار بھی کہا جاتا ہے
اولڈ ٹاون ایک اونچی جگہ پر واقع ہے یہ کراچی کا قدیم محلہ ہے اسی علاقے میں آج کا جوڑیا بازار بھی واقع ہے یہیں پر صرافہ بازار بھی واقع ہے اور یہیں پہ مصا لح جات کی ، پلاسٹک کی، چائے کی، ڈائیز اور کیمیکل کی گھی کی ،شکر کی اور دیگر اشیا کی مارکیٹیں واقع ہیں اس علاقے میں  آگے جاکر بابائے قوم محمد علی جناح کی جائے پیدائش بھی ہے یہیں پر پاکستان کی قابل احترام شخصیت عبدالستار ایدھی بھی رہائش پذیر ہیں اور  فلاحی کاموں کی نگرانی بھی کر رہے ہیں
اس سے قبل عرض کیا جاچکا ہے کہ یکم فروری1839 کو جب انگریزوں نے کراچی پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت کراچی کی کل حدود میری ویدر ٹاور اور کسٹم ہاوس کے درمیان میں واقع مٹی کے ایک چبوترے سے شروع ہوتی تھی اس چبوترے پر کراچی آنے والے اس مال کاکسٹم کیا جاتا تھا جو کے سمندر کے راستے سے کراچی آتا تھا یا کراچی سے بیرونی ممالک کے لئے بذریعہ بحری جہاز بھیجے جاتے تھے کسٹم ہاوس کے اس چبوترے سے شروع ہونے والے کراچی کی حدود کا خاتمہ آج کے موجودہ ڈینسو ہال کے عقب میں ہوتی تھی

(ا س ڈینسو ہال پر آج کل میڈیسن مارکیٹ واقع ہے
جہاں روزآنہ کروڑوں روپوں کا کاروبا رہوتاہے اس میڈیسن مارکیٹ کے اہم ترین رہنماوں میں جناب محمد شکیل نگر شامل ہیں )





 یہ بات واضح رہے کہ قدیم کراچی کی فصیل جس کو انگریزوں کے دور میں ڈھا دیا گیا تھا
 ڈینسو ہال کے عقب سے شروع ہوکرموجودہ رامپٹ روڈ کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی آگے جا کر میمن مسجد کے عقب میں ختم ہوجاتی تھی

 جہاں پر آج کل کپڑا مارکیٹ واقع ہے یہ کپڑا مارکیٹ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی کپڑا مارکیٹ ہے جب کہ پرانے کراچی میں اس وقت مختلف طرح کے کاروبار کئے جارہے ہیں ۔
جب کہ آدم جی داؤد روڈ پر واقع کیمکل اور ڈائز مارکیٹ ہے یہاں پرکپڑے کی صنعت سے وابستہ صنعتوں کے لئے مختلف قسم کے کیمیکل اور ڈایئز فراہم کئے جاتے ہیں ایک لحاظ سے یہ مارکیٹ تمام پاکستان کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے اس مارکیٹ کے زریعے پاکستان بھر کی کپڑے کے کارخانوں کو کیمیکل اور ڈایز فراہم کئے جاتے ہیں
اس مارکیٹ کا چرچا صرف کراچی یا پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکے پاکستان سے باہر بھی اس مارکیٹ کا تذکرہ کیا جاتاہے اور کیمیکل اورڈائیز کی ملٹی نیشنل کمپنیا ں اس مارکیٹ کے اہم تاجروں سے رابطہ کرتی ہیں کیمیکل اورڈائیز مارکیٹ کے اہم ترین رہنماوں میں سے ابراہیم پان والا ہیں ابراہیم پان والا طویل عرصے سے ڈائیز اور کیمیکل کا کاروبار کررہے ہیں اس کی وجہ سے اس مارکیٹ میں ان کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی کو بھی حاصل نہیں،کسی بھی اختلاف کی صورت میں اس مارکیٹ کے افراد اپنے معاملات کو طے یا حل کرانے کے لئے جن افراد سے رجوع کرتے ہیں ان میں سے ایک جناب ابراہیم پان والا ہیں

،اسی مارکیٹ کی اہم شخصیت جنا ب جہانگیر مگوں ہیں

 جناب جہا نگیر مگوں اگر چے کے فیڈریشن ا ف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے رکن ہیں اس اعتبار سے اکژ وبیشتران کے بیانات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ ڈایئز اور کیمیکل ایسوسی ایشن کی سرگرمیوں میں دلچسپی کے ساتھ حصہ لیتے ہیں
 اسی مارکیٹ کی ایک اور شخصیت عبدالشکور کھتری ہیں اگر چے کہ تقریبا نصف صدی قبل ان کے خاندان نے ڈایئز اور کیمیکل کا کاروبارشروع کیا تھا مگر آج ان کے خاندان کے مختلف افراد مختلف نوعیت کے کاروباری شعبوں میں مصروف عمل ہیں ان مین ٹیکسٹائل کا شعبہ بھی شامل ہے اسی مارکیٹ میں ساندل بار کی مشہور تجارتی فرم موجود ہے جو کے پاکستان میں معیاری ڈائز کی تیا ری کے بانی ہیں اس سے قبل مقامی سطح پر اگر چے کچھ ڈایئز اور کیمیکل تیار ہو رہے تھے مگر ساندل بار پاکستان کی پہلی فرم ہے جس نے پاکستان میں مقامی سطح پر ڈایئز اور کیمیکل کو تیار کرنا شروع کیا ہے ایک اطلاع کے مطابق ساندل بار کی تیار کردہ ڈایئز اور کیمیکل کو پاکستان سے باہر بھی فروخت کیا جارہا ہے ساندل بار دراصل اس خطے کا نام ہے جہاں پر آج کل فیصل آباد کا شہر واقع ہے یہ دو دریاوں کے درمیا ں کا خطہ ہے ساندل بار کے بانیوں ( جو کے آپس میں سگے بھائی تھے ان میں سے ایک اہم شخصیت مرحوم چوہدری قربان علی تھے جنہوں نے اس فرم کی کراچی میں شاخ کی داغ بیل ڈالی تھی مرحوم چوہدری قربان علی بے شمار نوعیت کے فلاحی کام بھی انجام دیتے تھے
 اسی مارکیٹ میں سندھ کے سابق گورنر اشرف ڈبلیو تابانی کی بھی فرم موجود تھی آج بھی ان کے وارث ڈایئز اور کیمکل کا کاروبا رکر رہے ہیں اسی مارکیٹ میں محمود برادربھی موجود ہیں یہ بھائی انتہائی جانفشانی کے ساتھ کاروبار انجام دے رہے ہیں اسی مارکیٹ کی ایک اور اہم شخصیت جناب اعجاز الہیٰ مگوں ہیں ان کا تعلق بنیادی طور پر پاکستان کیمیکل اینڈ ڈایئز ایسوسی سے ہے مگر جوڑیا بازار سے تعلق ہونے کے باعث ان سے مارکیٹ کا ہر چھوٹا بڑا واقف ہے
ڈائیز اور کیمیکل مارکیٹ سے متصل کراچی کی مصالحہ مارکیٹ ہے یہ مارکیٹ بھی پاکستان کی اہم ترین مارکیٹ شمار کی جاتی ہے یہان پر بیرون پاکستان سے بیشتر مصالحے درآمد کئے جاتے ہیں اس ما رکیٹ کے تاجروں کی رسائی انڈونیشیا اور ملائشیا سے لے کر افریقی اور امریکی ممالک تک سے ہے ان میں کالی مرچ جائفل لونگ بڑی اور چھوٹی الائچی اور دیگر اہم تریں مصالحے شامل ہیں
 ا س مارکیٹ کی اہم تریں شخصیت جناب حاجی شفیق الرحمان ہیں
حاجی شفیق الرحما ن کراچی چئیمبر آف کامرس کے صدر بھی رہ چکے ہیں اور صوبائی حکومت میں وزیر بھی رہ چکے ہیں حاجی شفیق الرحمان صرف مصالحہ جات کی مارکیٹ تک محدود نہیں ہیں بلکے ملک کی تاجر برادری کے اہم ترین رہنماوں میں شمار کئے جاتے ہیں اسی حوالے سے وہ ملک کی تاجر برادری کے اہم مسائل کو حکام بالا تک لاتے رہتے ہیںی طرح جعفر کو ڑیا کا بھی شما ر اس مارکیٹ کے اہم ترین رہنماوں میں سے کیا جاتا ہے جعفر کوڑیااس وقت پاکستان کریانہ مرچیٹس ایسوسی ایشن سینئر وائس چیئر مین ہیں  جعفر کوڑیا اس وقت اپنی ایسوسی ایشن کے علاوہ بھی دیگر شعبوں میں خدمات انجا م دے رہے ہیں۔۔
 پاکستان کریانہ مرچیٹ ایسوسی ایشن کے چئر مین حاجی عثمان ہیں یہ بات اہم ترین ہے کہ اس وقت قدیم کراچی یا اولڈ ٹاون کی حدود میں صرف کریانہ مرچنٹ ایسوسی ایشن ایسی تنظیم ہے جس کا مرکزی دفتر قدیم کراچی کی حدود میں قائم ہے ا ن کے علاوہ رئیس اشرف تار محمد بھی اس مارکیٹ کے اہم رہنماوں مین شمار کئے جاتے ہیں جواس مارکیٹ کے تاجروں کے مختلف نوعیت کے مسائل کو حل کرانے کے لئے کوشان رہتے ہیں ان کے ساتھ ان کے بھا ئی اعجاز تار محمد بھی عوام کیخدمت مین ہمہ تن گوش مصروف ہیں ۔

ایمپریس مارکیٹ کا ایم منظر
اسی مارکیٹ کی ایک اور ہر دل عزیز شخصیت محمد سلیم لالا بھی ہیں سلیم لالا ہر خاص عام سے بڑی ہی محبت اور خلوص سے ملتے ہیں
مصالحہ جات کی مارکیٹ سے متصل چا ئے کی مارکیٹ ہے جس کے اہم ترین رہنماوں میں سے ایک حنیف جانو اور عبدالرحیم جانو ہیں اگر چے کے عبدالرحیم جانور رائیس ایکسپورٹ کے حوالے سے پاکستان بھر میں جانے پہچانے جانے جاتے ہین کا دوسرے شعبوں سے بھی تعلق ہے اور چاول کی ملک گیر ایسوسی ایشن ریپ کے اس وقت سربراہ رحیم جانو ہیں مگراس کے باوجود یہ بھی جوڑیا بازار کے تاجروں کے مسائیل کو حل کرنے کے لئے وقت نکال لیتے ہیں۔
 یہ بات قابل زکر ہے کہ کراچی کی اہمیت خوراک کی اشیا کی برامدات کے حوالے سے سب سے پہلے سامنے آئی تھی یہاں سے گیہوں اور چاول بیرون برصغیر بھیجا جا رہا تھا
  م1844اور1845 میں جب انگریزوں کو کرچی پر قبضہ کیئے ہوئے محض پانچ برس کی مدت ہوئی تھی  کراچی کی کل برامدات کی مالیت ایک لاکھ بائس ہزار پاونڈ کے لگ بھگ تھی مگر دس سال کی مدت میں یہ بڑھ کر آ ٹھ لاکھ پچاسی ہزار پاونڈ سالانہ ہو گئی جسکے ہر سال مستقل بڑہتی ہی قدیم کراچی کی حدود میں اگرچے کے دیگر تجارتی شعبوں کاکاروبار بھی ہو رہا ہے
 مگر اس وقت ان میں نمایا ں کا روبار صرافہ بازار کا ہے یہ بازار اس وقت اگرچے کراچی میں اہم ترین مارکیٹ کی حیثیت رکھتا ہے مگر جوں جوں کراچی کو وسعت ملتی گئی ویسے ویسے کراچی کے دیگر علاقوں میں بھی مختلف نوعیت کی صرافہ مارکیٹیں قائم ہوتی چلی گئیں ہیں جیسے حیدری کی صرافہ مارکیٹ اورطارق روڈ کی صرافہ مارکیٹ جس کے نتیجے میں اس مار کیٹ کی اہمیت میں کسی قدر کمی واقع ہوگئی مگر اس کے باوجود اس مارکیٹ کی اہمیت اب بھی قائم ہے۔
یہ تھا اس قدیم کراچی کا ایک جائیزہ جو کے سیٹھ بھوجومل نے بسایا تھا اور اس کی فصیل تعمیر کی تھی یہ بات واضح رے کہ قدیم کراچی آجکل میٹھادر تھانے کی حدود میں آتا ہے جس کے انچارج ہیں جب کے ایس ڈی پی او جناب ہیں یہ تھا صدر ٹاون کے اس علاقے کا جائز ہ جہاں سے کراچی کی ابتدا ہوئی تھی یا جدیدکراچی کی داغ بیل سیٹھ بھوج مل نے ڈالی تھی۔


اصولا تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ محکمہ آثار قدیمہ اور دیگر وہ محکمے جو کے ہر سا ل اربوں روپوں کا بجٹ قومی خزانے سے حاصل کرتے ہیں وہ اس علاقے پر خصوصیت کے ساتھ توجے دیتے ،کیو نکہ کراچی کا یہ خطہ ہر لحاظ سے اہم خطہ ہے اس کوکبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے مگر ایسا معلوم کن وجوہات کی بنا پر نہیں کیا گیا اور یہ دیگر علاقوں کی مانند لاوارث بنا ہوا ہے نہ ہی اس علاقے کا سروے کیا گیا ہے اور نہ ہی اس علاقے کی کوئی تاریخ مرتب کی گئی ہے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس علاقے پر ان اداروں کی جانب سے کہیں پرکچھ بورڈ تک آویزاں نہیں کئے گئے ہیں جن کے زریعے عوام کو معلوم ہو کہ دراصل یہ علاقہ قدیم کراچی ہے اور اس علاقے کی ایک تاریخی حیثیت ہے ؟اور نہ ہی کراچی کے بارے میں کوئی بروشئیر تک شائع کیا گیا ہے ؟

ان علاقوں سے متصل قدیم بھیم پورہ کا علاقہ ہے یہ علاقہ آجکل کھوڑی گارڈن کا علاقہ کہلاتا ہے اس علاقے میں پرانی کتابوں کا اہم تریں بازار قائم ہے جہاں پر دنیا بھر کی قیمتی ترین کتابیں انتہائی سستے داموں دستیاب ہیں اس مارکیٹ سے متصل مشینوں کے پرزے جات کی مارکیٹ ہے اگر چے کہ یہ مارکیٹ بہت پھیلی پوئی ہے مگر اس کے باوجود اس مقام پر بھی ان پرزوں کی بڑی مارکیٹ اس جگہ پر موجود ہے کراچی چیمبر کی ایک بہت متحرک شخصیت کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق نائب صدر زاہد قمر کا تعلق اس مارکیٹ سے ہی ہے زاہد قمر توآل پاکستان ہارڈ وئیر ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں یہیں پے اس سے متصل کراچی کی اجناس کا بازار ہے جہاں پر تمام اشیائے خوردو نوش دستیاب ہیں کچھ قدم آگے چلنے کے بعد چمڑا گلی آجاتی ہے یہ پاکستان کی اہم تجارتی بازاروں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے اس مارکیٹ نے پاکستان کی تاجر برادری کو اہم ترین قائدیں دئیے ہیں ان مین سے ایک شہزادہ عالم ہیں شہزادہ عالم بھی کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر رہ چکے ہیں ان کے بڑے بھائی ارشد عالم چنیوٹ برادری کے سربراہوں میں شمار کئے جاتے ہیں یہ بات واضح رہے کہ چنیوٹی برادری کے تحت چلنے والے بہت سے اہم فلاحی کاموں کی نگرانی کے کام میاں ارشد عالم انجام دے رہے ہیں جنا ب ارشد عالم اس وقت فیڈریشن کے اہم عہدیداروں میں سے ایک ہیں جو کے فیڈریشن کی مرکزی پالیسیوں کو تشکیل دیتے ہیں چمڑہ گلی کے ساتھ ہی اجناس کی مارکیٹ واقع ہیں اس پر مارکیٹ کی مقبول ترین شخصیت جناب بلند اختر بھی کاروبار کرتے ہیں جناب بلند اختر کراچی چیمبر آف کامرس کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں نرمی اور محبت کے ساتھ مسکراتے ہوئے گفتگو کرنے والے بلند اختر ہر وقت ہر ایک کے کام آنے کے لیے آمادہ رہتے ہیں یہی حال ان کے لائق صاحبزادوں کا ہے۔
غلہ مارکیٹ
اسی جگہ کے سامنے کراچی کی غلہ مارکیٹ واقع ہے جہاں پر تمام ملک کے تاجر اپنی اشیا فروخت کر نے کے لیے لاتے ہیں اس کے سامنے کراچی کی سٹی کورٹ واقع ہے جہاں پر کراچی بھر کے مقدمات پیش کئے جارہے ہیں کراچی کی سٹی کورٹ کے عقب میں یا اس سے متصل پان منڈی ہے جہاں پر کراچی میں تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، سری لنکا اور مقامی طور پر پیدا ہونے والے پان فروخت کر نے کے لئے لائے جاتے ہیںیہیں پر پان کے فروخت کرنے والوں کی ایسوسی ایشن کا دفتر بھی قائم ہے ۔
میری ویدر ٹا ور
میری ویدر ٹاور 1886-7 میں سندھ کے کمشنر میری ویدر کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا اس سے تقریبا متصل کراچی بلکے ملک کی اب سے بڑی کپڑا مارکیٹ واقع ہے اس کپڑا مارکیٹ میں ملک بھر کے کپڑوں کا کاروبار ہو تا ہے یہاں پر صرف کپڑوں کا ہی کاروبار نہیں ہوتا ہے بلکے یہاں پر ان کپڑوں کی تیاری کے سلسلے میں استعمال ہونے والا دھاگہ بھی فروخت کیا جاتا ہے پاکستان کی چونکہ سب سے بڑی کیش فصل کپاس ہے اس لئے کپڑے کی مارکیٹ ہونے کے باعث یہاں پر روزآنہ کم و بیش اربوں روپوں کا کاروبار کیا جاتاہے یہ بات واضح رہے کہ انگریزوں کے دور میں کراچی کی اہمیت اس اعتبار سے قا ئم ہو ئی تھی کہ اس بندرگاہ کے زریعہ پنجاب اور دیگر علاقوں سے کپاس بیرونِ برصغیر یورپ اور امریکہ تک جاتی تھی اس کے اثرات کراچی کی ترقی پر بھی پڑے اس کے نتیجے میں کراچی تیزی کے ساتھ ترقی کرنے لگا کراچی کی کپڑا مارکیٹ کے اہم ترین رہنما عبدالزاق آگر ہیں جو کے اس وقت کراچی چیمبر آف کامرس کے نائب صدر ہیں عبدالرزاق آگر کپڑا مارکیٹ کی مقبول ترین شخصیت ہیں یہ اپنی سماجی خدمات کے حوالے سے زیادہ پہچانے جاتے ہیں ۔
صدر ٹاون کے اس اہم ترین قدیم علاقے سے متصل دیگر علاقے ہیں جب انگریزوں نے 1839 میں کراچی پر قبضہ کیا تھا تو اس کے فورا بعد اپنی افواج کے قیام کے لئے قدیم کراچی سے متصل ایک عارضی چھاونی قائم کی تھی اس عارضی چھاونی کی عمارتیں بعد میں اگر چے کہ ڈھا دیں گئیں مگر یہ دراصل نئے کراچی کے قیام کی بنیاد تھی چونکہ بہتر آب و ہوا اور بر صغیر کی یورپ سے نزدیک بندرگاہ ہونے کی وجہ سے یہ انگریز حکمرانوں کے لئے برصغیر میں سب سے اہم ترین بندرگاہ اور شہر تھا اور مشہور اسکالر رچرڈ برٹن نے کراچی کو سندھ کا آئندہ دارلخلافہ تجویز کیا تھا اس لئے کراچی کو سندھ کا آئندہ کا دارلخلافہ بنانے کے لئے اس کی آبادکاری اور منصوبہ بندی کیلئے خصوصی طور پر توجہ دی گئی اس مقصد کے لئے یورپ سے انجینئر بلوائے گئے سر چارلس نیپئر نے دارالخلافہ کراچی میں منتقل کر دیا نیپئر جب کراچی آئے تو ایک چھوٹے سے بنگلے میں رہائش اختیار کی اس بنگلے کو بعد میں کمیشنر ہاوس کہا جانے لگا قیام پاکستان کے بعد اس عمارت کو گرا کر اس کی جگہ موجودہ عمارت قائم کی گئی جسے اب ایوان صدر کہا جاتا 1847 میں نیپئر نے یو روپی افواج کے لئے بیرکیں تعمیر کیں ان کو آج بھی نیپئر بیرکس کہا جاتا ہے سب سے پہلے ایم اے جناح روڈ کی تعمیر کی گئی اب پرانے شہر کی جگہ نئے شہر کو تعمیر کیا جانے لگا تھا سر چارلس نیپئر 1847 میں بر صغیر سے یورپ واپس چلے گئے ان کے بعد سر بارٹل سندھ کے کمشنر بنے ان کے دور میں کر ا چی کی آئی آئی چندریگر سابقہ میکلوڈ روڈ کو تعمیر کیا گیاآئی آئی چندریگر کراچی جبکے بولٹن مارکیٹ کی عمارت کو 1883 میں تعمیر کیا گیا اس عمارت کا نام کراچی کے میونسپل کمشنر بولٹن کے نام پر رکھا گیا وکٹوریہ روڈ پر انگریزوں کی چھاونی کے اسلحہ کو رکھنے کا قلعہ نما ڈپو قائم تھا اس ڈپو میں برطانوی توپ خانہ اور دیگر اسلحہ رکھا جاتا تھا جس کو روز آنہ صبح سویرے نکال کرسر کیا جا تا تھا اس کی آواز تمام شہر میں گونجتی تھی
انگریزوں کے اقتدار کے بعد سے کراچی مستقل پھیلتا چلا گیا اس کے ساتھ ساتھ کراچی کی کاروباری سرگرمیوں میں بھی اسی طر ح اضافہ ہوتا چلا گیا نیو چالی کے علاقے میں کراچی ہندو تاجروں نے زیادہ تر اپنی رہائش اور تجارتی و کاروبار ی مراکز قائم کئے اگر چے کہ ایم اے جنا ح روڈ پر موجودہ بلدیہ کے مرکز کے سامنے ہندووں کا مندرسوامی نارائین مندر اور ایک آبادی موجود ہے مگر اس وقت یہ علاقہ مکمل طو پر ہندووں کا ہی مرکز سا بن کر رہ گیا تھا جو کے یہاں پر مختلف نوعیت کے کاروبار کر رہے تھے اس مندر سے متصل اور اس کے سامنے لائٹ ہاوس کا علاقہ ہے جہا ں پر آج کل ایم اے جناح روڈ پر عینک سازی کی دوکانیں قائم ہیں جسکی انجمن کے سربراہ جناب حبیب الرحمان ہیں جن کے پاس بیٹھ کر اور گفتگو کرکے احساس ہوتا ہے کہ معلومات کا ایک سمندر بہ رہاہے جناب حبیب الرحمان کے ساتھ بیٹھ کر وقت کے گزرنے کا احساس ختم ہو جاتا ہے اس کے آگے کاغذ کی مارکیٹ قائم ہے یہ کاغذی مارکیٹ ملک کی سب سے بڑی مارکٹ اس مارکیٹ کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک
عبدا لمجید میمن ہیں جو کے کراچی چیمبر کے گزشتہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیتے تھے جو کے اس امر کی علامت ہے کے عبدالمجید میمن اس مارکیٹ کی اہم ترین اور مقبول شخصیت ہیں پیپر مارکیٹ کی دیگر اہم شخصیات میں سے ایک ریحان پیپر والے ہیں یہ کاغذ کے کاروبار میں بڑا اہم مقام رکھتے ہیں ان کی شہرت تمام پاکستان میں قائم ہے پیپر مارکٹ کے ساتھ ہی حقانی چوک ہے اس وقت یہا ں پر ملے جلے کاروبار ہو رہے ہیں ان کاروبارو ں میں پرنٹنگ کا کام بھی شامل ہے اس کے علاوہ یہاں کمپوزنگ کا کام بھی ہوتا ہے   موجودہ حقانی چوک کے پاس ہی اور برنس روڈ کے ساتھ ہی ہندوں کا پرانا مرکز سابقہ رام باغ اور موجودہ آرام باغ ہے یہ رام باغ دراصل ہندوں کے مندروں اور دھرمشالاؤں کا مرکز تھا یہاں پر ہندووں کے تاریخی مقدس مقام ہنگلاج جو کہ صوبہ بلو چستان میں واقع ہے کی یاترا کے لئے جانے والے یاتریوں کے لئے ٹھیرنے کے لئے مہمان خانے قائم کئے گئے تھے آرام باغ کے اردگرد کی عمارتوں میں سے بیشترہندووں
کے مذہبی اداروں کے لئے وقف تھیں قیام پاکستان کے بعد یہاں پر آباد بیشتر ہندو پاکستان سے چلے گئے ان کی جگہ پر ہندوستان سے آنے والے مسلمان آباد ہو گئے یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کی بیشتر عمارتیں اس وقت اویکیو ٹرسٹ بورڈ کے پاس ہیں جس کے نتیجے میں رام باغ کا نام تبدیل ہو کر آرام باغ ہو گیا اور یہاں پر نئے آباد کاروں نے فرنیچر کا کاروبار شروع کردیا اس وقت کراچی میں چونکے آبادکاری ہو رہی تھی اس فرنیچر مارکیٹ کا کاروبا چمک اٹھا پھر یہ مارکیٹ کراچی کی سب سے بڑی فرنیچر مارکیٹ بن گئی اس وقت آرام باغ فرنیچر مارکیٹ کی ایسوسی ایشن کے سربراہ عتیق میر ہیں جو کہ فرنیچر مارکیٹ کی ایسوسی ایشن کے علاوہ کراچی فرنیچر ڈیلرز گروپ کے علاوہ الائینس آف مارکیٹ کمیٹی کے چیر مین بھی ہیں عتیق میر کی خوش اخلاقی اور ملنساری کی وجہ سے ہر جمعے کو کراچی کے بیشتر صحافی ان کے دفتر میں جمع ہونا اپنا فرض تصور کرتے ہیں اگرچے کہ ان کے دفتر کے دروازے ہر وقت ہر کسی کے لئے کھلے رہتے ہیں
کراچی کی کتابوں اور رسائل کی سب سے بڑی مارکیٹ اردو بازار ہے جو کہ اگرچے کہ قیام پاکستان کے بعد بنی مگر اس وقت صوبہ سندھ میں ہر طرح کی کتابوں کا سب سے بڑا مرکزیہی اردو بازار ہے اس وقت اردو بازار میں ہر طرح کی کتابوں کی بڑی بڑی دکانیں موجود ہیں اس میں کوئی شک نہی کہ پاکستان میں اخبارات کتابوں اور رسائل کا سب سے بڑا مرکز لاہور ہے جہاں پرکتابوں کی لق و دق عالی شان دکانیں مال روڈ اور دیگر اہم جگہوں پر قائم ہیں جہاں پر ہر وقت اس طرح عوام کاجم غفیر جمع رہتا ہے کہ جیسے ان دوکانوں پر کتابیں مفت تقسیم کی جارہی ہیں کراچی کے اردو بازار کی اگر چے اس طرح کی صورت حال تو نہیں ہے مگر پھر بھی ویلکم بک پورٹ ر فضلی سنز اور شیخ شوکت اینڈ سنز دار لا شاعت اور دیگر اداروں نے اس کمی کو کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں بازوق قارئیں کی اچھی کتابوں تک باسانی رسائی ہو جاتی ہے اس کے علاوہ ویلکم بک والوں کی جانب سے مختلف مواقع پررعائتی داموں کتابوں کی فروخت کے نتیجے میں عوام کو اچھی کتابیں حاصل ہو جاتی ہے ۔


صدر میں ٹریفک کا ایک منظر
صدر ٹاون بلکہ کراچی کی قدیم مارکیٹوں میں سے ایک فرئیر مارکیٹ بھی ہے یہ سندھ کے انگریز ایڈمنسٹریٹر سر بارٹل فرئیر کی خدمات کے عوض ان کے نام سے موسوم کی گئی ہے قیام پاکستان کے وقت یہاں پر خوردنوش کی اشیا اور گوشت فروخت کیا جاتا تھا مگر قریب میں اردو بازار کے قائم ہو جانے کے بعد سے اس مارکیٹ میں پرنٹنگ کابھی کام ہونے لگا اس کے ساتھ ہی ساتھ یہاں پراخبارات رسائل جرائد اور کتابوں کی ڈسٹریبیوشن کا کام بھی شروع ہو گیا اس مارکیٹ میں کراچی اور سندھ کے بڑے بڑے ڈسٹری بیوٹر ز کے دفاتر قائم ہیں ان میں انگریزی اخبارڈان اور جاسوسی ڈائجسٹ کے تقسیم کار احمد حسن چاند میاں گلستان نیوز ایجنسی والے عرفان ایکسپریس اخبار کے صدیق کے ا ور دیگر تقسیم کاروں کے دفاتر قائم ہیں جہاں سے کراچی کے تمام چھوٹے بڑے اخبارات رسائل اور جرائد کو تقسیم کیاجاتا ہے۔اس سے آگے ایم اے جناح روڈ پرریڈیو پاکستان کی قدیم عمارت موجود ہے یہ عمارت اگر چے قیامپاکستان سے قبل تعمیر کی گئی تھی مگر ریڈیو پاکستان کراچی سینٹر یہان پاکستان کے قیام کے بعد قائم کیا گیا جو کے کسی وقت پاکستان کے ریڈیائی نظام کا مرکز تھا تبت سینٹر کے پاس اور ریڈیو پاکستان کے سامنے آتو اسپئر پارٹس کی مارکیٹ ہے یہ مارکیٹ کئی اعتبار سے بہت بڑی ہے اس مارکیٹ میں گاڑیون سے لے کر موٹر سائکلوں تک کے پارٹس ملتے ہیں یہیں پر پاسپیڈا کا مرکز قائم ہے جو کے آٹو اسپئر پارٹس کے ڈیلروں اور دکانداروں ایسوسی ایشن ہے ایوان صنعت و تجارت کوئٹہ کے صدر جناب عطااللہ کھوکر پاسپیڈا کے سربرہ رہ چکے ہیں
صدر ٹاون کی حدود میں دوسرا اہم ترین کاروباری مرکز صدر کا ہے یہ علا قہ ابتدا میں کراچی کی چھاونی کا حصہ تھا کراچی کے بانی سیٹھ بھوجو مل کے پوتے سیٹھ ناول مل اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ایک دن کیپٹن ہنری پریڈی مجھے فوج کے افسر اعلیٰ کے پاس لے گئے اور ان کی موجودگی میں مجھے بتایا کہ ہم نے صدر بازار کی بہتری کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہیں اور بہت سے جتن کئے ہیں ہم نے میروں سے صدر بازار میں آنے والی تمام اشیا کو محصول سے مثتثنیٰ قرار دلوایا ہے لیکن اس کے باوجود اس بازار میں کوئی شخص کاروبار کے لئے آنے کے لئے تیار نہیں ہے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ٹالپر حکو مت کے اہلکار تاجروں کو منع کر رہے ہیں اور دھمکیان دیتے ہیں اس لئے کوئی تاجر صدر بازار میں کاروبار کرنے کی ہمت نہیں کررہا ہے اس افسر اعلیٰ نے مجھ سے اس معاملے میں معاونت کی درخواست کی ناول مل لکھتے ہیں کہ انہوں نے انگریز افسر اعلیٰ کو یقین دلایا کہ وہ ان کے حکم پر ٹالپر حکمرانوں کے احکامات کی حکم عدولی کر سکتے ہیں چونکے انہوں نے اس معاملے میں میری مدد اور تعاون حاصل کرنے کی خواہش کی ہے اس لئے مجھ سے جو بھی کچھ ہوا وہ میں کروں گا ناول مل لکھتا ہے کہ اس کے بعد میں نے دوسرے دن اپنے خرچ پر کئی عمارتیں تعمیر کرنے کا حکم دیا چھاونی میں اپنے ادارے کی شاخ کھولی اور متعدد تاجروں کو لوگوں کی سہولت کی خاطر دوکان کھولنے پر آمادہ کیا جب صدر میں کاروبار ترقی کرنے لگا ٹالپروں کے کراچی کے کارندوں نے مل کر حیدرآباد میں ٹالپر حکومت کے دربار میں میرے خلاف درخواست دی کہ ناول مل نے کراچی کے کاروبار کو متاثر کردیا ہے اس کی وجہ سے حکومت کی آمدنی کو کئی لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے اس پر اس وقت کے ٹالپر حکمران میر نصیر کو غصہ آگیا اور انہوں نے مجھے گرفتار کرنے کے لئے بیس سوار کراچی بھیجے یہ خبر مجھے حیدرآباد میں مقیم میرے رشتے داروں نے بھیجی اس پر میں نے فورا کیپٹن پریڈی برطانوی فوج کے افسر اعلیٰ سے رابطہ قائم کیا انہوں نے فورا حیدرآ باد میں مقیم نائب سیاسی اہل کار لیفٹنٹ میلنسی کو خط لکھا اور اس صورتحال سے آگاہ کیا لیفٹنٹ میلنسی خود میر نصیر کے پاس گئے اور اس خبر کی تصدیق چاہی میر نصیر نے غصے سے کہا کہ ہاں میں نے احکام دئے ہیں اس نے کراچی کو تباہ کر دیا ہے اور ہمیں محصول کی مد میں لاکھوں روپوں کا نقصان دیا ہے اب وہ میرے قابو میں آرہا ہے میں اس کوچھوڑوں گا نہیں لیفٹنٹ میلنسی نے کہا کہ انہیں زہن نشین رکھنا چاہے کے ناول مل کو برطانوی حکومت کا تحفظ حاصل ہے لہٰذا میر کوئی ایسا اقدام نہ کریں جس کے نتیجے میں ناول مل کو کوئی نقصان پہنچ سکے اس پر میر نصیر نے اپنے احکامات خاموشی کے ساتھ واپس لے لئے اور کوئی ٹالپر فوجی کراچی ناول مل کو گرفتار کرنے کے لئے نہیں آیا۔
یہ تھا صد ر بازار کی آباد کاری کے سلسلے میں کراچی کے آباد کار انگریز حکمرا نوں کی کوشش کا تذ کرہ اس وقت 163.5 ایکڑ پر محیط صدر بازار کے قیام کے بعد یہ بازار کراچی کا اہم اورخوبصورت ترین بازار بن گیا تھا اس کے اردگرد، وکٹوریہ روڈ، الفنسٹن اسٹریٹ ،فریر اسٹریٹ مینسفیلڈاسٹریٹ اور پریڈی اسٹریٹ تھیں اس میں ایک طرف انگریز تاجروں کی دکانیں قائم تھیں دوسری طرف پارسیوں، مسلمانوں اور ہندوں کی دوکانیں تھیں پیر علی محمد راشدی لکھتے ہیں کہ صدر کے علاقے میں انگریز رہتے تھے الفنسٹن اسٹریٹ پر میمنوں کی چند دکانوں کے علاوہ سب دکانیں انگریزوں پارسیوں اور ہندو عاملوں کی تھیں مگر صدر کا مہندار تب بھی میمن حاجی ڈوسل ہوتا تھا پیر علی محمد راشدی لکھتے ہیں کہ ڈوسل کی دوکان ایک ادارہ تھی سندھ کے تمام وڈیرے اورمیر اور پیر اس دوکان کے مقروض تھے اور فصل کٹنے کے بعد وہ اپنے قرضوں کو ادا کرتے تھے کراچی کی پہلی موٹر کار ایک میمن سیٹھ عبدالرحیم صالح محمد نے منگوائی تھی جو ہمبر

HUMBER تھی
صدر ٹاون کے علاقے صدر بازار کی آباد کاری کا حال تو آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ کس طرح نئے شہر کے آبادکاروں نے اس نئے شہر میں بازار کو آباد کرنے کے لئے اقدامات کئے صدر کی تعمیرکے بعد انگریزوں نے اس بات کا خیال رکھا کہ صدر میں ان کا بھر پور کنٹرول رہے اور مقامی آبادی اگرچے کے کاروبار کرے مگر اس کے پاس اس علاقے کا کنٹرول نہ رہے اس مقصد کے لئے انہوں نے اس طرح کے قوانیں اور ماحول پیدا کیا کہ صدر بازار میں ایک طرح سے مقامی آبادی اجنبیت محسوس کرتی تھی پیر علی محمد راشدی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ صدر کی سب سے بڑی دوکان پر ہر طرح کا سامان عمدہ دھاگے سے لے کر اعلیٰ بندوقوں تک سب کچھ مل جاتا تھا البتہ دوکان میں داخل ہونے سے قبل بوٹ صاف کرائے جاتے کوٹ کے بٹن بند کئے جاتے اور داڑھی مونچھیں کو ہاتھ پھیر کر درست کیا جاتا کہ کہیں کسی انگریز افسر سے ملاقات نہ ہو جائے۔ قیام پاکستان سے قبل اگر چے کہ صدر اور ٹاور کے درمیان آباد کاری ہو چکی تھی مگر اس کے باوجود کراچی کی آبادی قیام پاکستان سے قبل ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ نہیں ہوئی تھی اس وقت صدر کے ارد گرد کے بازاروں میں بوہری بازارموجود تھا جبکے ارد گرد کے اگر چے کہ دو یا تین منزلہ عمارتیں موجود تھیں جن کو ایک طرح سے فلیٹ ہی کہا جا سکتا ہے مگر ان دنوں اس قدر گنجان آباد کاری نہیں تھی پیر علی محمد راشدی لکھتے ہیں کہ الففنسٹن اسٹیریٹ کی دکانیں دیکھ کر لوگ بہت متاثر ہوتے تھے
ہو ر نامی ایک انگریز کی دوکان نئے فیشن کے دلدادہ وڈیروں کی دلچسپی کا مرکز ہوتی تھی جب کے میمنوں کی ایک دوسری بڑی دوکان عدن والا کی تھی میمنوں کے علاوہ الفنسٹن اسٹریٹ پر پارسیوں کی دوکانیں بھی ہوتی تھیں مثلا جال بھائی فوٹو گرافر اور سیٹھ نسروانجی ، جمشید کی دوکانیں تھیں آجکل ایفنسٹن اسٹرٹ کا نام تبدیل کرکے زیب انسا اسٹریٹ رکھ دیا گیا ہے جہاں پر زیادہ تر جیولر دکانیں ہیں جس میں سے معروف جیولرز، چھوٹانی جیولرز، الما س جیولرز، اؤ کے چو ھوٹانی جیولرز، ثنااللہ انگلش بوٹ ہاوس اور دیگر دوکانیں شامل ہیں۔
موجودہ ایمپریس مارکیٹ یکم نومبر1884 کو قائم ہوئے تھی اس کا سنگ بنیاد سندھ کے گور نر میسی فرگوسن نے رکھا تھا اس وقت اس میں 258 دکانیں اور پھل ،مچھلی اورگوشت کی 341دکانیں بنائیں گئیں تھیں اس جگہ پر اسی طرح کی مارکیٹ قائم تھی البتہ قیام پاکستان کے بعد ایمپریس مار کیٹ کے ارد گرد جہاں پر آج کل گوشت سبزیوں اور پھلوں کی دکانیں قائم ہیں اس طرح سے قائم نہیں تھیں۔
ْٰٓ قیام پاکستان کے بعدکراچی نئی مملکت کا دارالخلافہ بنایا گیا جس کے بعد آبادی کا دباؤکراچی پر پڑا اس کے نتیجے میں کراچی کے ہر حصے اور ہر شعبے پر تیزی کے ساتھ دباؤ پڑا صدرچونکہ اس وقت کا قدیم بازار تھا اس لئے کراچی کی آبادی کا بیشتر حصہ اسی بازار سے خریداری کرتا تھا رفتہ رفتہ اس بازار میں توسیع ہونے لگی اور پھر اس صدر نے موجودہ صدر کا روپ دھار لیا جس کے ایک طرف وکٹوریہ روڈ پر الیکٹرونک مارکیٹ قائم ہو گئی ہے اس الیکٹرونک مارکیٹ میں کراچی الیکٹرانک ایسوسی ایشن کے سربراہ محمد عرفان ہیں محمدعرفان کراچی کے تمام الیکٹرانک ڈیلروں کے ہر دل عزیز رہنما ہیں یہ الیکٹرانک مارکیٹ کے تاجروں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں ان کے ساتھیوں میں سے ایک حاجی ناصر خان ترک ہیں اسی مارکیٹ کی ایک اور ہر دلعزیز شخصیت شیخ جاوید ہیں شیخ جاوید وفاق ایوانہائے صنعت تجارت پاکستان کے لائف ممبر ہیں اورایوانہائے صنعت تجارت پاکستان کی شپرز کاونسل کے چیئرمین بھی ہیں اس کے علاوہ نیشنل شپنگ کاونسل کے چیئرمین بھی ہیں ایمپریس مارکیٹ کے دوسری جانب پاکستان کی ویڈیو فلموں کا سب سے بڑا مرکز رینبو سینٹر ہے جہاں پراس وقت دنیا بھر کی ویڈیو فلمیں اورکمپیوٹر کے سافت وئیر اور سی ڈی ملتی ہیں پاکستان کی اس سب سے بڑی ویڈیو فلموں اور سی ڈی کے مرکز کے اہم ترین رہنما سلیم میمن ہیں ۔سلیم میمن رینبو سینٹر کے دکانداروں کے مسائل کو حل کرانے کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں اسی لئے رینبو سینٹر کے دکاندار اپنے مسائل کوحل کرانے میں سلیم میمن سے مدد لیتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے کہ صدر ٹاون کراچی کی بڑی ٹاون میں سے ایک ہے صدر ٹاون میں گیارہ یونین کونسل ہیں صدر ٹاون کی دیگر یونین کونسلوں میںیونین کونسل اولڈ حاجی کیمپ، یونین کونسل گارڈن ، یونین کونسل کھارادر ،یونین کونسل صدر، یونین کونسل نانک واڑہ ، یونین کونسل ریلوے کالونی ،یونین کونسل گزدرآباد، یونین کونسل ملت نگر ، یونین کونسل سول لائن، یونین کونسل کلفٹن، یونین کونسل کہکشاں شامل ہیں یہ تما م یونین کونسلیں دراصل اس کراچی کا اصل حصہ ہے جو کے قیام پاکستان کے وقت آباد تھا قیام پاکستان کے وقت ان یونین کونسلوں کے علاوہ صرف چند علاقے کراچی میں شامل تھے ان میں سے ایک لیاری کے کچھ علاقے اور ڈرگ روڈ کے ائیرپورٹ سے ملحقہ علاقے شامل ہیں جب کے منگھو پیر، ڈرگ کالونی ،ملیر اور ماری پور کے علاقے اگرچے کہ کراچی کا حصہ کہلاتے تھے مگر یہ علاقے کراچی کے مضافات شمار کئے جاتے تھے یہی وجہ ہے کے اس وقت کراچی کے مضافات اور آج کے کراچی کے تقریبا شہری علاقے ملیر میں نواب بھاولپور کی کوٹھی میں قائد اعظم محمد علی جناح آرام کرنے کے لئے مقیم ہوئے تھے ان تما م علاقوں کے حالات اور تاریخ
اگلے صفحات میں ملاحظہ کیجیے گا ۔

یہ صفحہ ابھی تحقیق اور تفتیش کے مراحل سے گذر رہا ہے