KARACHI LAND GRABING REPORT NO 2

کراچی جو پاکستان کا ہر لحاظ سے سب سے بڑا شہر ہے نااہل اور کرپٹ انتظامیہ کی وجہ سے بری طرح مسائل کا شکار ہے ایک جانب تو کرپٹ انتطامیہ نے کراچی کے عوام کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے تو دوسری جانب نااہل انتطامیہ نے پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر کو تباہی سے دوچار کررکھا ہے
یہ کراچی شہر کا المیہ ہے کہ اس سب سے بڑے شہر کو چلانے کے لئے کراچی شہر میں ایک انتطامیہ ہے ہی نہیں ایک جانب تو  کے ڈی اے کے ایم سی کے محکمے ہیں  تو دوسری جانب بے شمار ادارے ہیں جو کراچی کے نطام کو چلانے کے دعویدار ہیں۔
 ان اداروں میں سے کچھ کی نوعیت کچھ اس طرح کی ہے کہ
(۱)
 پاکستان ریلوے کے زیر انتطام علاقے اور ان کی کالونیاں
 (2)
سول ایوی ایشن اور اس کے زیر انتظام علاقہ۔
(3)
  ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹیاں
 کراچی میں اس وقت ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیاں دو حصوں میں تقسیم ہیں ایک ملیر کینٹ کے ساتھ سپر ہائی وے پر واقع ہے دوسری ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹی جو ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹی کے نام سے زیادہ مشہور ہے
 ، (4)کراچی پورٹ ٹرسٹ کے زیر انتطام علاقہ اور کالونیاں
(5) پورٹ قاسم اور اس کے زیر انتظام علاقہ
(6)
کینٹونمنٹ بورڈ کے زیر انتظام علاقے کراچی میں اس وقت 7 عدد کینٹونمنٹ بورڈ ہیں
(7)
 پاک پی ڈبلیو ڈی کے زیر انتطام علاقے مثلا مارٹن کوارٹر
 پی ا سی ایچ ایس
PESCH اور اس سے ملحقہ سوسائیٹیاں جن کا نظام وفاقی حکومت کے ہاتھ میں ہے (8) نیول سوسائیٹیاں جو آر سی ڈی ہائی وے اور مختلف علاقوں میں واقع ہیں
(9)پولیس لائیز،
(10)پاکستان اسٹیل کے زیر انتظام علاقے
،(13)
کراچی کی مضافاتی بستیاں جو اس وقت گڈا پ ٹاؤن اور بن قاسم ٹاؤن میں منقسم ہیں
کراچی کی اس تقسیم کے نتیجے میں بد عنوان اور نااہل انتظامیہ کو ناجائز کمائی کے بھر پور مواقعمل گئے ہیں عوام کی جانب سے کی جانے والی کسی بھی شکائت کا ان کے پاس یہ جواز ہوتا ہے کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی تو نہیں ہے فلاں ادارے یا محکمہ کے پاس اس مسئلہ کا حل ہے جس کے نتیجے میں عوام کے پاس صرف ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ مختلف محکموں کے درمیان چکر لگاتے رہیں اور پھر تھک ہار کر اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں
ان اداروں کی موجودگی میں اس وقت صورتحال کچھ اس طرح کی ہو چکی ہے کہ ہر راشی اور بدعنوان کسی نہ کسی جواز کہ تحت اس طرح کی بدعنوانی کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ جس کے زریعے وہ عوام کو باآسانی دھوکہ دے سکتا ہے اس وقت صورتحال کچھ اس طرح کی ہو چکی ہے کہ کراچی میں عوام کے لئے مکان تعمیر کر لینا جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکا ہے دوسری جانب لینڈ مافیا نے کراچی کو اس طرح سے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے کہ عوام کے لئے یہ جاننا بہت مشکل بن چکا ہے کہ کس طرح سے مکانات حاصل کریں یا اپنے اور اپنے بچوں کے سر چھپانے کے لئے چھوٹا سا پلاٹ حاصل کریں کیونکہ لینڈ مافیا نے کراچی کو مکمل طور پر اس طرح سے اپنے نرغے میں لے رکھا ہے کہ عوام کے لئے یہبہت مشکل کام ہوچکا ہے کہ وہ اصل اور جعلی میں شناخت کرسکیں کراچی کی کئی سوسائیٹیوں کے زمہ دار اور عہدیدار اب لینڈ مافیا کا روپ اس طرح سے دھار چکے ہیں کہ ان کے لئے کسی بھی پلاٹ اور زمین کے دو نمبر کاغذات فراہم کردینا مشکل کام نہیں رہا ہے وہ کسی بھی پلاٹ کے بیک وقت کئی کاغذات تیار کرکے بہت سے خریداروں کو فراہم کردیتے ہیں جیسا کہ یونیورسٹی روڈ پر واقع رضوان ہاؤسنگ سوسائیٹی کا معاملہ ہے ایک ایک پلاٹ کے کئی کئی فائیلیں اور ڈاکومنٹس تیار کرکے بہت سے خریداروں کو فراہم کردیں گئیں ہیں جس کی وجہ سے اب ہو یہ رہا ہے کہ یہ بے چارے خریدار ان ڈاکومنٹس کو لے کر جگہ جگہ مارے مارے گھوم رہے ہیں مگر ان کی کہیں پے کوئی شنوائی نہیں ہے ان بے چاروں کی زندگی بھر کی آمدنی ڈوب چکی ہے یہ ہی صورتحال کراچی میں سوسائیٹییوں کے علاقے میں واقع ان چوبیس سوسائیٹیوں کی ہے ان سوسائیٹیوں میں جو قیام پاکستان کے فورا بعد قائم کی گئیں تھی اور حکومت کی جانب سے ان کو انتہائی سستے داموں زمین بھی فراہم کی گئی تھی مگر ان سوسائیٹیوں کے ارباب اختیار نے دولت کے حصول کی خاطر تمام قائدے اور قوانین کو نظر انداز کردیا ان سوسائیٹیوں کا جائیزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئیگی کہ ماضی میں جن مقامات کو ایمنٹی پلاٹس کے طور پر نقشوں میں طاہر کیا گیا تھا اب ان مقمات پر یا توکمرشل مارکیٹیں تعمیر ہوچکی ہیں یا پھر ان پر رہائیشی مکانات تعمیر کئے جاچکے ہیں حالانکہ ان ایمنٹی پلاٹوں کی جگہ پر یا تو اسکول یا پھر عوامی فلاحی مراکز قائم کرنا چاہئے تھا مگر ان مفاد پرست اور لالچی افراد نے اپنے مفادات کی خاطر عوام کے لئے بہت برے مسائل پیدا کردئے ہیں
گزشتہ دنوں حکومت سندھ نے 7ارب روپے سے زائد مالیت کے 663تجارتی،رفاہی اور رہائشی پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ میں ملوث کراچی کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز یونین کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کیس واپس لے لیا ہے۔شہر کے قلب میں واقع 24کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیزکے 24نمائندے 12برس سے یونین پر قابض تھے اور انہیں رجسٹرار کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز سندھ کی انکوائری رپورٹ پر معطل کر کے یونین میں سرکاری ایڈ منسٹر یٹر مقرر کیا گیا تھا۔تاہم نیب سندھ میں تعینات گورنمنٹ کو آپریٹو افسر امداد علی مغل نے ایک بار پھر یو نین کے غیر قانونی ڈائریکٹر بنوادئیے تھے
 تفصیلات کے مطابق محکمہ خزانہ اور امداد باہمی حکومت سندھ کے سیکشن افسر(C-1)سید محمد کاشف شاہ کے دستخط سے 2جولائی2004ء کو سندھ کو آپریٹوہاؤسنگ اتھارٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر کو ایک ارجنٹ لیٹر نمبرSO(C-1)11(41)/2002لکھا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ سینئر صوبائی وزیر خزانہ و امداد باہمی سید سردار احمد کی ہدایت پر عمل کیا جائے اور اگر کراچی کو آپر یٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز یونین کیس کے حوالے سے 26مئی2004ء کو جاری کئے گئے سندھ ہائی کورٹ آرڈر کے خلاف کوئی اپیل داخل کی گئی ہے تو وہ واپس لے لی جائے اور محکمے کو فوری طور پر رپورٹ دی جائے۔ذرائع کے مطابق یہ خط ایسے وقت جاری کیا گیا۔جب سندھ کو آپریٹو ہاؤ سنگ اٹھارٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر اور ڈپٹی رجسٹرار کو آپریٹو سوسائٹیز سندھ نسیم الحق ملک مذکورہ ہائی کورٹ آرڈر کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کرچکے تھے جب جاری کئے گئے خط کے حوالے سے فریقین نے اعلیٰ عدالت کو آگاہ کیا تو عدالت نے خط کی بنیاد پر اپیل خارج کردی اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ کے دویژ نل بنچ نے کراچی کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز کی معطل یو نین کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکم جاری کیا تھا کہ 45یوم میں یونین کے انتخابات کرائے جائیں اور انتظامی امور منتخب انتظامیہ کے حوالے کئے جائیں اس حوالے سے ذرائع نے بتا یا کہ یونین کے ڈائریکٹرکی شکایت پر 6مئی2003ء کو یو نین کی انتظامیہ کو معطل کر کے یو نین کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا اور سعید احمد اعوان کو سرکاری ایڈمنسٹر یٹر مقرر کر دیا گیا پھر معطل انتظامیہ کو 30مئی2003ء کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا جس کا جواب 21جون2003ء کو دیا گیا۔بعد ازاں یونین کے وائس چیئرمین نے سینئر صوبائی وزیر خزانہ و امداد باہمی حکومت سندھ سے درخواست کی کہ معطل انتظامیہ کو بحال کردیا جائے جبکہ بہادر یارجنگ کوآپریٹو سوسائٹی کے صدر اور یو نین کے رکن ڈاکٹر فہیم انصاری اور یونین کی جنرل باڈی کے رکن سلیم فاروقی نے صوبائی وزیر سے یونین انتظامیہ کی شکایت کی جس پر سید سردار احمد نے 4اگست 2003ء کو حکم دیاکہ سندھ کو آپریٹو ہاؤسنگ اتھارٹی آرڈی نینس 1982ء کے سیکشن(1)6کے تحت حقائق جاننے کیلئے انکوائری کرائی جائے اس حوالے سے 21اگست 2003ء کو نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے حکومت سندھ نے رجسٹرار کو آپریٹو سوسائٹیز سندھ شمس جعفرانی کو انکوائری افسر مقرر کیا جنہوں نے 6اپریل 2004ء کو انکوائری مکمل کر کے حکام بالا کو جو رپورٹ بھجوائی اس میں کہا گیا ہے کہ کراچی کو آپریٹوہاؤسنگ سوسائٹیزیونین کا قیام کو آپریٹو ایکٹ 1925ء کے سیکشن 10کے تحت 25جنوری 1949ء کو اس وقت عمل میں آیا جب رجسٹرار کوآپریٹو سوسائٹیز کراچی نے یونین کو سرکاری رجسٹریشن سرٹیفکیٹ نمبرS-543/49جاری کیا یونین کے رجسٹر قانون نمبر 6اور 8کے مطابق یو نین کی رکن شہر کی 24بڑی اور اہم کو آپریٹو سوسائٹیز ہیں ہر سوسائٹی اپنے 2منتخب نمائندوں کو یو نین کی ڈائریکٹر شپ کیلئے نامزدکرنے کی پابند ہے ان نمائندوں کا اپنی اپنی کو آپریٹو سو سائٹی میں پلاٹوں کا مالک ہونا اور سوسائٹی کی منتخب انتظامیہ کا حصہ ہونا لازمی ہے رجسٹرڈ قوانین کے مطابق کسی بھی سوسائٹی کا ایسا رکن جو پلاٹ کا مالک نہ ہو وہ نہ تو سوسائٹی کے انتخابات میں حصہ لینے کا مجاز ہے اور نہ ہی یو نین کا ڈائریکٹر بننے کا اہل ہے۔یونین کے رجسٹرقانون نمبر 12(a)کے تحت یونین کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ہر رکن سوسائٹی کا ایک منتخب فرد لیا جانا ضروری ہے اس کے علاوہ رجسٹرار کو آپریٹو سوسائٹیز یا اسکا نمائندہ اور سیکریٹری منسٹری آف ورکس یا اس کا نمائندہ شامل ہوگا
۔رپورٹ کے مطابق 24ڈائریکٹروں میں ریاض الہدیٰ شمسی،شمیم احمد،ڈاکٹر اظہر مسعود احمد فاروقی،میاں ایس ایم نصیر،ایس ایم شمیم،ایم اے غنی،سلیمہ سلطان بیگم،عبدالصمد چنائے،کیپٹن اعجاز ہارون،منصورایف لاکڈاوالا،مرزا حسن علی بیگ،ایم امین عبدالستار غازی،سلطان احمد قریشی،ایم شریف بھائی جی،ایس اے مخدومی،ابو طالب دادا،محمد فاضل فاروق،عبدالوحیداے شکور،ایم صدیقی سولیجا،احمد عبداﷲ،ایس ایس اور یزی اور ڈاکٹر اظہر حسین شامل ہیں ان میں سے نسیم کو آپریٹو سوسائٹی کے ڈاکٹر اظہر مسعود احمد فاروقی،ماڈرن کو آپریٹو سوسائٹی کے احمد عبداﷲ،ایم ایس جی پی کو آپریٹو سوسائٹی کے شریف احمد،منیا کو آپریٹو سوسائٹی کے عبدالوحید عبدالشکور،کچھی میمن سوسائٹی کے احمد عبدا ﷲ اور کو کن مسلم کو آپریٹو سوسائٹی کے ایم شریف بھائی جی کے نام پر ان کی سوسائٹی میں پلاٹ نہیں ہیں مذکورہ افراد یونین کے غیر قانونی ڈائریکٹر ہیں اس کے علاوہ یونین کے رجسٹر قوانین کے مطابق منسٹری آف ورکس کی نمائندگی نہیں ہے الریاض کو آپریٹوہاؤسنگ سوسائٹی کو دی گئی یونین کی رکنیت 1983ء میں منسوخ کی جاچکی ہے۔رپورٹ کے مطابق یونین کا آخری سالانہ جنرل اجلاس 28جون1993ء کو منعقد کیا گیا تھا۔بعدازاں اس حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی 14جنوری1954ء کو گورنر جنرل پاکستان اور یونین کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت یونین کو کراچی شہر میں 1200ایکڑ زمین الاٹ کی گئی یہ زمین یونین کی رکن سوسائٹیز کے لئے دی گئی تھی جبکہ یونین کی رکن کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں میٹرو کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی شامل نہیں اس کے باوجود اسے تقریباً 32ہزار مربع گز کا پلاٹ الاٹ کیا گیا جو ایک جھیل تھی اور طارق روڈ کے قریب خونی جھیل کے نام سے مشہور تھی اس پلاٹ کی قیمت مارکیٹ ریٹ کے اعتبار سے تقریباً 44کرور روپے اور 663پلاٹوں کی مجموعی قیمت 7ارب روپے سے زائد ہے جبکہ میٹرو سوسائٹی کا مذکورہ پلاٹ اب 3سوسائٹیوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔میٹرو سوسائٹی کے علاوہ باقی 2میں دہلی مرکنٹائل اور دارالامان کو آپریٹو سوسائٹی یونین کی رکن ہیں رجسٹرار کو آپریٹو سوسائٹیز سندھ کی انکوائری رپورٹ کے مطابق یونین کو ملنے والے 583تجارتی پلاٹوں کی فروخت /نیلامی کا ریکارڈ غائب ہے جبکہ یہ پلاٹ سینٹرل کمرشل ایریا طارق روڈ و اطراف میں واقع ہیں اس کے علاوہ یونین اور کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے ملی بھگت کر کے 8رہائشی پلاٹوں کے استعمال کی نوعیت غیر قانونی طور پر تبدیل کردی ہے جبکہ یونین کی جانب سے الاٹ کئے گئے 72رفاعی پلاٹوں کے استعمال کی نوعیت بھی غیر قانونی طور پر تبدیل کردی گئی اور غیر قانونی الاٹمنٹبھی کی گئی ہیں۔اس کے علاوہ یونین نے اپنی رکن سوسائٹیز سے مجموعی طور پر ایک کروڑ72لاکھ 28ہزار 220روپے لئے تاکہ کے ڈی اے اسکیم 45میں زمین خریدی جائے لیکن نہ تو ابھی تک زمین ملی ہے اور نہ ہی رقم واپس کی گئی ہے اس کے علاوہ گزشتہ 8برس کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ یونین کوایک کروڑ70لاکھ روپے سے زائد آمدنی ہوئی اور یونین نے 90لاکھ روپے سے زائد فنڈ بورڈ آف ڈائریکٹر اور مجاز حکام کی اجازت کے بغیر اپنی رکن سوسائٹیز میں تقسیم کئے ہیں اخراجات کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے دوران متعدد ادائیگیوں کی رسید اور داؤ چر غائب پائے گئے
ہیں۔مزید یہ کہ یونین نے 1995ء میں بہادر آباد کلب کو 15لاکھ روپے چند ہ دیا اور سندھ وومن کو آپریٹو یونین کو ایک لاکھ روپے دئیے گئے لیکن کو آپریٹو ڈپارٹمنٹ سے اجازت نہیں لی گئی۔یونین آفس کی پہلی منزل سب کمیٹی کی زیر نگرانی 10لاکھ روپے سے زائد میں تعمیر کرائی گئی لیکن اس حوالے سے ریکارڈ پر کوئی ٹینڈر نوٹس وغیرہ نہیں پایا گیا۔یو نین نے 20لاکھ 54ہزار806روپے کی لاگت سے کمپیوٹر کالج بنوایا جو روز اول سے بھاری خسارے میں چلا اور یونین کے پلاٹ پر سے قبضہ ختم نہیں کرایا گیا۔اس کے علاوہ متعدد قوانین کی خلاف ورزی پائی گئی جن کی بنیاد پر کو آپریٹو رجسٹرار شمس جعفرانی کی سفارش پر یو نین کو سرکاری تحویل میں لیا گیا۔بعدازاں پہلے ایڈمنسٹریٹر کی جگہ ڈپٹی رجسٹرار آڈٹ نسیم الحق کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔جنہوں نے صوبائی وزیر خزانہ کو لکھے گئے ایک خط میں پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ ودیگر خلاف قانون اقدامات کی نشاندہی کی ہے۔تاہم یونین نے سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل کی جانے والی اپیل پر محکمہ خزانہ وامداد باہمی حکومت سندھ سے ملی بھگت کر کے سپریم کورٹ سے کیس خارج کرایا تو سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق انتخابات کیلئے اسسٹنٹ رجسٹرار کو آپریٹو سو سائٹیز آڈٹ کراچی
امداد علی مغل کو الیکشن افسر مقرر کیا گیا۔واضع رہے کہ امداد مغل نیب سندھ کی معاونت کیلئے بھی مامورہیں ان کی زیر نگرانی یو نین کے انتخاب کی خاطر ہر رکن سوسائٹی سے 2/2منتخب نمائندوں کے نام طلب کئے گئے اور پھر جن 21منتخب ڈائریکٹروں کی فہرست جاری کی گئی ان میں ڈاکٹر فہیم الدین انصاری سمیت ڈاکٹر اظہر مسعود احمد فاروقی،احمد عبداﷲ اور ایم شریف بھائی جی کے نام شامل ہیں۔جبکہ ماڈرن سوسائٹی کے عبدالصمد چنائے،منیا کو آپریٹو سوسائٹی کے عبدالوحید عبدالشکور اور ٹریڈرز کو آپریٹو سوسائٹی کے داکٹر اظہر حسین کا نام شامل نہیں ہے اور 3سوسائٹیز کے ڈائریکٹر تبدیل ہو گئے ہیں۔واضع رہے کہ کوکن کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے شریف بھائی جی کو جنہوں نے مذکورہ غیر قانونی اقدامات میں اہم کردار ادا کیا ہے ایک بار پھر غیر قانونی ڈائریکٹر بنادیا ہے اور یوں 7ارب روپے سے زائد مالیت کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ و دیگر غیر قانونی امور حکومت سندھ محکمہ خزانہ وامداد باہمی کی ملی بھگت سے دبا دیئے گئے ہیں۔
سکیم نمبر33 کا نقشہ دیکھنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کی سرحد یا باونڈری وال کہیں پر تو ملیر ڈیولیپمنٹ کی حدود سے مل جاتی ہے کہیں پر گڈاپ ٹاؤن کی حدود سے مل جاتی ہے ا سکیم نمبر33 جو 137 کو آپریٹیو سوسائیٹیوں پر مشتمل ہے ماضی میں کراچی کے مضافات میں شامل ہونے کے باعث بے شمار گوٹھوں پر مشتمل تھا یونیورسٹی روڈ کے اختتام پر واقع صفورا گوٹھ اس علاقے کی ابتدا بن جاتی ہے جسے ضلع ملیر کہا جاتا تھا جو کہ اس وقت گلشن اقبال تاؤن
اسکیم نمبر 33ان ہی اسکیموں میں سے ایک ہے جہاں پر عوام کو انتہائی پریشانیوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کے ڈی اے KDA اسکیم نمبر 33 کاکے ڈی اے کی جانب سے 1967 میں اعلان کیا گیا تھا جب کہ بورڈ آف ریوینیو کی جانب سے 1977 میں اسکیم نمبر 33 کے لئے زمین فراہم کی گئی کے ڈی اے KDA اسکیم نمبر 33 میں 137کو آپریٹیو سوسائیٹیاں قائم تھیں جو کے کو آپریٹیو سوسائیٹیز کے محکمے میں رجسٹرڈ تھیں ان 137کو آپریٹیو سوسائیٹیوں کو 54 سیکٹرز میں54 ہزار 26ایکڑ زمین الاٹ کی گئی مگر بے شمار بے قائدگیوں اور گھپلوں کے سامنے آنے کے بعد اس وقت کے مارشل ایڈ منسٹریٹر نے 18مئی 1980 کو فیصلہ کیا کہ یہ اسکیم پانچ سال کے اند ر اندر مکمل کردی جائے گی جس کے بعدان سوسائیٹیز سے 1981 سے 1991 تک کے ترقیاتی اخراجات وصول کر لئے گئے جس کے بعد اصولا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بورڈ آف ریوینیو کی جانب سے عوام اور ان کو آپریٹیو سوسائیٹیز کو زمینیں فراہم کردی جاتی مگر ایسا نہیں ہوا اورلاکھوں کی تعداد میں مختلف سوسائیٹیوں کے ممبران اس وقت ایسے ہیں جن کے پاس اس وقت محض کاغذات کے سوا کچھ بھی نہیں ہے جبکہ وہ اپنی متاع عزیز سے محروم بھی ہو چکے ہیں لینڈ مافیا نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کراسکیم نمبر 33 کی137 کو آپریٹیو سوسائیٹیوں کی 1400ایکڑ زمین پر قبضہ جما لیا کے ڈی اے KDA اسکیم نمبر 33 میں جعلسازی کے زریعے پلاٹوں کی الاٹ منٹ کا کام زرووں شوروں سے شروع ہو گیا جب کہ مختلف حربوں اور طریقوں سے کے ڈی اے KDA اسکیم نمبر 33کی زمین پر قبضہ کی پلاننگ کی گئی اس پلاننگ میں اہم ترین کردا رمحکمہ ریوینیو کے افسران اور پٹواریوں نے کیا جو کہ مختلف علاقوں میں مختلف لینڈ گریبر گروہوں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ہیں یہ بات ہمیشہ ہی نوٹ کی گئی کہ سندھ میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت آئے چاہے وہ کسی کی بھی حکومت کیوں نہ ہو غلام مرتضیٰ جتوئی ہوں یا غوث علی شاہ، جام صادق ہوں یا ممتاز علی بھٹو ہوں یا آفتاب شعبان میرانی کا دور ہو یا عبداللہ شاہ اور لیاقت جتوئی کا دور ہو ، ہو ہر دور میں ان صوبائی بادشاہوں نے سرکاری زمینوں کو جی بھر کے لوٹا ہے کسی بھی وزیر اعلیٰ کاریکارڈ نکلوا کر دیکھ لیا جائے کوئی بھی بے داغ نہیں ملے گا ان سیاستدانوں کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے کہ ان کی
واردات کے کھرے بعد میں کہیں بھی نہیں ملتے ہیں کہ کس نے یہ واردات کی کیوں کہ کسی بھی طرح کی زمین کو حاصل کرنے کے بعد یہ سیاستدان پہلے تو اس زمین کو اپنے ہاری موالی کے نام پر سرکاری کھاتوں چڑھواتے ہیں پھر جلد ہی اس سے اپنی جان چھڑوالتے ہیں مگر دام ضرور کھرے کرتے ہیں اگر چے کہ ان سیاسی بادشاہوں کی جانب سے سرکاری زمینوں کو لوٹ مار کے معاملے کو بعد کے آنے والوں نے بہت سے بنیادوں پر کبھی بھی متنازعہ بنانے کی کوشش نہیں یہ صرف فوجی حکومتوں کے دور ہی میں کیا گیا مگر اکثر کے معاملے میں بعد میں دوسرے نمبر کے خریدار ہی گرفت میں آئے ہیں کبھی بھی زمین کے کسی کیس میں اس فرد کو کم ہی سزا دی جاتی ہے جو کہ سرکاری زمین کو کسی بھی طرح سے حاصل کرنے کا باعث بنا تھا
سابق وزیر اعلیٰ سندھ علی محمد مہر کے دور میں سابق ڈی او کراچی سابق مختار کار کے ڈی اے KDA اسکیم نمبر 33 عبدالطیف بروہی اورسابق مختار کار گڈاپ ٹاؤن غلام قادر جونیجواور بورڈ آف ریوینیو کے دیگرا فسران کی ملی بھگت سے غیر قانونی الاٹ منٹوں کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا زرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ سندھ علی محمد مہر کے دور میں کے ڈی اے KDA اسکیم نمبر 33 کی 400 ایکڑ کے قریب زمین کو فوتی کھاتوں کے زریعے جعلی ناموں پر منتقل کردی گئی اس زمین میں 170ایکڑ کے قریب زمین ایک ہندو لیلا رام کی زمین تھی جو کہ اس نے 1943میں قیام پاکستان سے قبل حاصل کی تھی جس کو متروکہ وقف کی پراپرٹی تصور کیا جاتا تھا جو کہ دراصل حکومت پاکستان کی ملکیت تھی مگر جعلسازی اور دھوکہ دیہی کہ زریعے اس سرکاری زمین کو پہلے نجی وقف زمین بتایا گیا پھر اس کے بعد اس کے نئے خریدار پیدا کردئے گئے فارم ایک سے لے کر فارم سات تک میں مختلف قسم کی ہیرا پھیری اورجعلسازی کے زریعے انتہائی قیمتی زمین پر قبضہ جما لیا گیا اسی طرح 1930کے ریوینیو ریکارڈ میں جعلسازی کے زریعے تبدیلی کرکے کے ڈی اے KDA اسکیم نمبر 33 کے10 دیہہ جن میں دیہہ تھومنگ دیہہ تھانو دیہہ دیہہ دوزان دیہہ سونگل دیہہ بٹی دیہہ آمری دیہہ صفوراں دیہہ مکھی دیہہ تیسر دیہہ لال بھکر،دیہہ ناگن تونگل، شامل ہیں زرائع کا کہنا ہے کہ قبضہ مافیا اور بورڈ آف ریوینیو کے کرپٹ افسران پٹواریوں اور مختارکاروں کی ملی بھگت سے سرکاری آراضی کی غیر قانونی خرید و فروخت کے لئیایک فرضی پارسی خاتون خدیجہ ڈنشاکے نام سے 1930 کے دور کا اندراج کیا گیا تھا جس کے بعد اس کو سرکاری ریکارڈ میں مختلف افراد کے نام پر منتقل کرتے ہوئے دکھلایا جس کے بعد اس زمین کو پاؤور آف آٹارنی کے زریعے ریکارڈ میں کسی بھی فرد کے نام پر فروخت کیا جانا بتلایا گیا زرائع کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ سندھ علی محمد مہر کے بھائی نے جو کہ گھوٹکی کے ناظم تھے اس سا رے معاملے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا اس معاملے کی تحقیقات کے احکامات ناظم اعلیٰ کراچی نعمت اللہ ایڈوکیٹ کی جانب سے دئے گئے جب کہ اینٹی کرپشن میں بھی اس معاملے کی تحقیقات کی گئیں مگر بعد میں یہ معاملہ دبا دیا گیا اگر چے کہ اس وقت موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام کی جانب سے فوتی کھاتوں کی منتقلی پر پابندی عائد کردی گئی ہے مگر جن لوگوں نے اربوں روپوں کے گھپلے کئے تھے وہ اب بھی محفوظ ہیں اور موجودہ سیاسی لڑائی میں محض سیاسی مخالفین اور ان کے ساتھی ہی زد میں آئے ہیں ۔ زرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ سندھ علی محمد مہر کے دور میں ان کے بھائی نے زمینوں کی پانچ فائیلیں بورڈ آف ریوینیو کے ایک زمے دار افسر کو دیں کہ ان میں ہدایت کے مطابق تبدیلیاں کی جائیں مگر اس زمہ دار افسر نے یہ کام کرنے سے انکار کردیا جس پر سابق وزیر اعلیٰ کے بھائی نے اس افسر کا تبادلہ کرادیا نئے آنے والے افسر نے ان پانچوں فائیلوں میں ہدایات کے مطابق مطلوبہ تبدیلیاں کردیں جس کے بعد علی محمد مہر وزارت اعلیٰ کی کرسی سے ہٹائے گئے

 یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ  اسی طرح گڈاُ پ ٹاؤن جس کا بیشتر علاقہ اسکیم نمبر 33 میں شامل ہے لینڈ مافیا کی وجہ سے بے شمار گھپلو ں کا شکار ہے
جس کی وجہ سے عوام کے اربوں روپے دوب چکے ہیں۔


یہ صفحہ ابھی تحقیق اور تفتیش کے مراحل سے گذر رہا ہے برائے مہربانی اس حوالے سے جو بھی معلومات آپ حضرات کے پاس موجود ہیں
درج زیل ایڈریس  یا ٹیلی فون نمبر پر ارسال کردیں
سید عبید مجتبی
092-03452104458 
obaidmujtaba@yahoo.com